Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

جنات کا پیدائشی دوست‘علامہ لاہوتی پراسراری

ماہنامہ عبقری - فروری 2020ء

جنات شکلیں کیسے بدلتے ہیں؟
آپ نے کبھی سنا ہوگا کہ جنات مختلف شکلیں بدل لیتے ہیں وہ مختلف شکلیں کیسے بدلتے ہیں؟ اور مختلف صورتوں میںکیسے آتے ہیں؟ آئیےمیں آپ کو اس کے کچھ مناظردکھاتا ہوں اور بتاتا ہوں کیونکہ یہ سچ بھی ہے اورحقیقت بھی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدت کاملہ کو جنات کو مختلف شکلیں بدلنےکا زور اور طاقت دی ہے اور اختیار دیا ہے اور یہ مختلف شکلیں انسان تو نہیں جنات ضرور بدل لیتے ہیں اور جب بھی بدلتے ہیں سوفیصد ویسے ہوتے ہیں جیسے کہ وہ مخلوق ہوتی ہے‘ کوئی بندہ بھی اس میں یہ نہیں دیکھ سکتا اور نہ ہی پرکھ سکتا ہے۔
پہلے تو خود جنات کا وجود ہی مشکوک ہے
میں ایک جگہ بیٹھا تھا تو مجھے کسی نے جنات کی مختلف شکلیں بدلنے کے واقعات سنائے جو کہ اس کے بیتے تھے‘ ایک نہایت پڑھے لکھے اور کسی اچھے عہدے پر متمکن شخص فوراً بول اٹھے‘ پہلے تو خود جنات کا وجود مشکوک ہے‘ جنات ہیں یانہیں ہیں یہ سب پیروں اور شعبدہ باز لوگوں کی کہانیاں ہیں پھراگر جنات ہیں بھی سہی تو وہ نظر نہ آنے والی مخلوق ہے جو نظر نہیں آتی اس کا شکلیں بدلنا کیسے ممکن ہے؟ بہت سنجیدہ لیکن تلخ لجے میں ان کی یہ بات سب نے سنی اور حیرت اس بات پر ہوئی کہ وہ اپنے اس بیان اور عقیدے پر نہایت مطمئن تھے۔ نامعلوم مجھے کیا سوجھی میں نے انہیں کہا: آئیں ہم دیکھ لیتے ہیں کہ کیا جنات اپنی شکلیں بدل سکتے ہیں؟ میں نے فوراً باورچی جن کو اطلاع دی اور ان سے کہا کہ آپ خود بھی اور اپنے اہل و عیال کو بھی لے کر میرے پاس آئیں‘ ایک جن کو میں نے کہا کہ وہ مکھی بن جائے اور ان صاحب کو جو کہ خود وجود کے قائل نہیں‘ ذرا ستائیں۔ تھوڑی ہی دیر گزری ایک مکھی آگئی اور وہ بھنبھناتی ہوئی کبھی ان کے ناک پر ‘کبھی ہاتھ پر بیٹھتی‘ اُدھر گفتگو ہورہی تھی اور وہ اپنی گفتگو اور دھواں دھار تقریر‘ نفرت آمیز لہجے میں جنات کا انکار‘ ان کی شکلیں بدلنے کاانکار کررہے تھے۔ ادھر مکھی نے انہیں زچ کیا ہواتھا‘ پھر وہ مکھی کو مارنے کی کوشش کررہےتھے‘ تھوڑی دیر ہوئی انہوں نے اخبار لےلیا کہ مکھی میرے ہاتھ پر بیٹھے گی‘ اخبار کو لپیٹ کر میں اس کو ماروں گا لیکن ہر بار مکھی اڑجاتی اور اخبار ان کے بازو اورہاتھ پر جاکر لگتا۔
ایک جن کیسے مکھی بن سکتا ہے؟
مکھی نے ان کی گفتگو کو ڈھیلا کردیا اور ان کی دھواں دھار تقریر میں کمی آنا شروع ہوگئی۔ میں نے تھوڑی دیر کے بعد ان سے کہا : کیا خبر یہ مکھی ہی خود جن ہو‘ کیا آپ کو یقین ہے؟ کہا یہی باتیں ہوتی ہیں جو آپ کی وجہ سےلوگ گمراہ ہوتے ہیں مکھی بھلا مکھی ہوتی ہے اور آج کل موسم ایسا ہے کہ مکھی بھنبھناتی رہتی ہے‘ آتی رہتی ہے‘ مکھی جن بن کر کیسے انسان کو تنگ کرسکتی ہے اور مکھی جن بن کر کیسے انسان کے قریب آسکتی ہے؟ میں نے ان سے کہا اب یہی مکھی بھڑ بن جائے‘ میری بات سن کر انہوں نے قہقہہ لگایا‘ تھوڑی ہی دیر میں ایک کالے رنگ کا بھڑ‘ خطرناک آوازمیں بھنبھناتا ہوا ان کےقریب آیا بار بار کاٹنے کیلئے لپک رہا ہے‘ چہرے پر خوف‘ میں نے کہا:اب یہاں سےہٹنا نہیں میں نے باورچی جن کے بیٹےکوکہاکہ اس کی ٹانگیں پکڑلو۔ انہوں نے اس کی ٹانگیں پکڑ لیں اور وہ زمین سے جڑگئیں‘ اب اس کی بے کسی‘ بے بسی اور تلخی اور بدتمیزی کا زوال شروع ہوا۔
معاف کردیں! میرا علم تھوڑا تھا
حیرت اس بات پر ہوئی کہ وہ کالا بھڑ بہت خطرناک انداز میں بھنبھناتا ہو‘اس کے دائیں بائیں آتا‘ کبھی اس کے ہاتھ‘ ماتھے‘ چہرےپر اور وہ مسلسل ہاتھ ہلا کر اس کو دور کرنےکی کوشش کررہا تھا‘ بس زیادہ دیر نہیں گزری‘ چند ہی منٹ کے بعد اس کی ہائے ہائے نکلنا شروع ہوئی اور کہنے لگا: معاف کردیں‘ بس میرا علم تھوڑا تھا‘ اس سے پہلے وہ دنیا کا بہت بڑا سائنسدان بھی تھا‘ سکالر بھی تھا‘ مفکر بھی تھا‘ دانشور بھی تھا‘ کتابوں کا مصنف بھی تھا‘ علم کا سمندر‘ غرور کا پہاڑ نامعلوم کیا تھا؟ بس چند منٹ میں اس کے لہجے‘ اس کے حلیے‘ اس کے انداز کو بدل کر اس میں عاجزی کو ایسا ڈالا کہ وہ عاجز بے بس ہوگیا۔ اب ساتھ بیٹھےوہ شخص جو اپنے حالات سنارہے تھے پہلے تو وہ بھی بول رہے تھے کہ نہیں بھائی جان یہ سچ ہے۔
کتے سے لیکر بھیانک ڈائن تک کی داستان
ایک دفعہ میں جارہا تھا کہ مجھے ایک کتے کا چھوٹا سا بچہ ملا‘ سخت سردی تھی اور وہ سردی سے کانپ رہا تھا‘ میں نے کہا اس کی خدمت کردی جائے‘اس کی میں نے خدمت کی‘ اسے سردی سے بچایا اور اسے ایک گرم جگہ رکھا لیکن جتنا میں رکھتا جاتا تھا اس کا جسم بڑھتا جاتا تھا حتیٰ کہ وہ بہت خونخوار کتا بن گیا‘میں ڈر کر بھاگا‘ آگے دیکھا تو ایک بڑھیا دیکھی‘ جو کانپ رہی تھی‘ پھر خیال ا ٓیا کہ یہ بڑھیا بھی وہی کتا ہی نہ ہو لیکن بڑھیا بھی تھوڑی ہی دیر میں کبھی جوان عورت بن جاتی‘ کبھی قہقہے لگاتی‘ کبھی خود بڑھیا بن جاتی‘ تھوڑی ہی دیر میں خطرناک ڈائن بن گئی جس کے لمبے لمبے دانت‘ بکھرےہوئے بال‘ الجھےہوئے ناخن اور غرّاتی ہوئی آواز۔ حتیٰ کہ میرے پسینے چھوٹ گئے‘ میں بھاگا ‘آگے دیکھا تو چیونٹیوں کے بہت بڑے غول کے غول تھے اوراتنے زیادہ کہ ان کی ایک دیوار سی بنی نظر آرہی تھی‘ میں نے ان کی دیوار پھلانگی تو کچھ چیونٹیاں چپک گئیں اور مجھےکاٹنا شروع کردیا۔ پھر میں گھرگیا تو یہ سارا واقعہ اپنی والدہ کو بتایا‘ انہوں نے کچھ کلام الٰہی پڑھ کر میرے اوپر دم کیا تھوڑی دیر ہوئی۔ گھر کا دروازہ کھلاکچھ لوگوںبچے‘ بوڑھے‘ جوان بیس پچیس لوگ آکر گھر میںبیٹھ گھر گئے اور زاریاں کرنے لگے کہ یہ کلام نہ پڑھیں ۔
نہ پڑھو‘ ہمارا بیٹا جل جائے گا
یہ ساری غلطی ہمارے بیٹے کی ہے‘یہ ہر آتے جاتے کو چھیڑتا ہے‘ اس کو پتہ نہیں تھا کہ آپ کے پاس اسم اعظم اور کلام ہے۔ وہ بہت زاریاں کررہے تھے‘رو رہے تھے۔ آخرکار کہنےلگے: نہ پڑھو‘ ہمارا بیٹا جل جائے گا‘ مر جائے گا‘ خاک ہوجائے گا‘ ہمارا جوان بیٹا ہے ابھی اس کی شادی کرنی ہے‘ اس کی شادی کی تیاریاں ہورہی ہیں‘ ہمارے اوپر ترس کھائیں جب اماں نے یہ بات سنی تو اماں نےآنکھیں کھولیں‘ وعدہ لیا‘ معاف کردیا‘ تھوڑی ہی دیر میں یہ غائب ہوگئے۔اب سے کچھ دیر پہلے یہ ساری باتیں مفکر‘ دانشور اوراینکرپرسن کو بالکل فضول گفتگو‘ بکواس اور پتھر کے دور کی باتیں‘ ڈھکوسلے محسوس ہورہے تھے لیکن کچھ ہی دیر کے بعد واقعہ ایک دم بدل گیا۔ پہلے مکھی تھی‘ پھر بھڑتھا‘ بھڑ کیا تھا؟ وہ دانشور‘ ایسا بیٹھا کہ جھاگ کیا بیٹھے گی‘ میں خاموشی سے یہ منظر دیکھ رہاتھا‘ اس سے پہلے اس نےجتنا اللہ تعالیٰ کے بارے میں ‘ نبی کریم ﷺ کے بارےمیں‘ صحابہؓ، اہل بیتؓ کے بارے میں‘ اولیاء‘ صلحاء‘ نیک ہستیوں کے بارے میں بدزبانی کی تھی‘ یہ اس کو سزا ملنی چاہیے تھی اس کی سزا فورا ًاگر معافی کی طرف آجاتی تو اسے نصیحت نہ ملنی تھی‘ نصیحت ملنا بہت ضروری ہے‘ سزا اور جزا کا نظام اللہ کاہے‘ اب تھوڑی دیر ہوئی میں نے باورچی جن کوکہا کہ آپ سارے بھڑ بن کر اس کے اردگرد اسے خوب ستائیں اور اس کو توہین کا مزا چکھائیں۔
اس نے بڑی ہستیوں کی توہین کی ہے
اب ایک اوربھڑ آیا‘پھر دوسراآیا ‘پھر تیسرا آیا اب تو بھڑوں نے چھاؤں کردی‘ اس کی چیخیں اس کا واویلا ‘یہ بھاگ نہیں سکتا تھا‘ اس کا نچلا دھڑ حرکت نہیںکررہا تھا‘ا ب سر اور بازو سےبار بار بھڑوں کو بھگانےکی کوشش‘ منہ سے جھاگ‘ تھوکیں‘ رونا‘ آنسو‘ چیخیں‘ لوگ ادھر اُدھر سے اکٹھےہوگئے۔ میں نے اس دکھیارے سے کہا: جب بھی لوگ آئیں‘پوچھیں کیاہے؟ کہیں میںنے داستان سنائی تھی‘ اس نے بڑی ہستیوں کی توہین کی اور کہا یہ سب جھوٹ ہے‘ فریب ہے‘ دھوکہ ہے‘ دکانداری ہے اوردکھاوا ہے‘ اب لوگ آنا شروع ہوئے‘ ہرفرد آکر پوچھتا کیا ہوا حتیٰ کہ اس کی بیوی آگئی۔ اس کی اولاد آگئی ‘کوئی اس کے قریب آنےکوتیار نہیں تھا‘ بھڑوں کا خوف ایسا تھا کہ اس کے قریب آنے کا کوئی سوچ نہیں سکتا تھا۔ اس ساری مصیبت اور کشمکش کو ایک گھنٹہ سے زیادہ ہوگیا حتیٰ کہ اس کی عاجزی‘ اس کی بے کلی اور بے قراری کو میں نے دیکھا اور اس کا بار بار معافی مانگنا‘ اللہ اس کے رسول ﷺ ‘آل رسولؓ‘ اصحاب رسولؓ‘ اولیاءؒ صلحا ءؒنیک لوگ‘ خود اس مسکین سے جس کے ساتھ یہ واقعہ ہوا اس سے معافی مانگنا جب اس کا معافی مانگنا بڑھ گیا۔
اب اس کو معافی ملنی ہی چاہیے
اس کی معافی کی انتہا ہوگئی تو میں نے سوچا اب اس کو معافی ملنی ہی چاہیے تو فوراً میں نے باورچی جن کو کہا : وہ اور اس کا خاندان چلے جائیں‘ بس تھوڑی ہی دیر ہوئی سب بھڑ ختم ہوگئے‘ بھڑوں کا سارا نظام ایک پل میں رک گیا اور اس کے پاؤں کھل گئے‘ وہ اٹھا اور زمین پر گر کر سجدہ ریز ہوگیااسے کوئی قبلہ سمت کاپتہ نہیںتھا بار بار کہہ رہاتھا کہ اللہ مجھےمعاف کردے‘ میں نےتیری طاقت کو چیلنج کیا ہے‘ میں نہیں جانتا تھا تو کون ہے؟ کتنا طاقتور ہے؟بلک بلک کر رو رہا تھا‘شاید بچے بھی اتنا نہ روئیںجتنا وہ رو رہا تھا اور روتا ہی جارہا تھا۔ اس کا رونا آج بھی مجھے یادہے اور ابھی بھی یاد ہے اس کے رونے کی بے بسی‘ اس کی چیخیں‘ اس کا چلانا ایسا تھا کہ اچھا خاصا فرد بھی رونے لگ جائے اور اس کے رونے پر سارا مجمع جوجمع ہوچکا تھارو رہا تھا اور اس کی عاجزی نے اتنا رلایا کہ خود مجھے بھی رونا آگیا اور ایک احساس ہوا کہ انسان کتنا کمزور ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کتنی طاقتور ہے‘ انسان پل میں کتنا اپنی کمزوری اور بےبسی کا اظہار کرتا ہے او ر ختم ہوجاتا ہے۔
قدرت نے جنات کو یہ طاقت دے رکھی ہے
یہ ایک واقعہ نہیں ایسے کئی واقعات ہیں کہ میں نے ایسے جنات دیکھے کہ جنات پل میں اپنی شکلیں‘ صورتیں‘ اپنے نقشے کیسے بدل لیتے ہیں‘ انہیں ہر چیز حتیٰ کہ جاندار ہو یا بے جان اپنانے کی صلاحیت حاصل ہے اورقدرت حاصل ہے‘ رب نے انہیں یہ قدرت ‘ طاقت اور تاثیر دی ہوئی ہے۔ اچھا خاصا انسان مغالطے میں پڑ جاتا ہے۔ ایک گھر میں جانا ہوا تو وہاں مکڑیاں جالا تان لیتی تھیں گھر والوں کا کہنا یہ تھا کہ ابھی ہم نے جالا اتارا پھر کمرے میں دیکھا کہ پھر جالا تانا ہوا تھا جبکہ مکڑی اتنا جالا اتنی جلد نہیں بن سکتی ۔
میں سمجھ گیا! دراصل یہ جنات ہیں
آخر یہ کیا ہے؟ وہ مکڑیاں اورجالا اتا راتار کر تھک گئے اور عاجز آگئے تھے۔ میں سمجھ گیا یہ دراصل جنات ہیں جو کہ یہ سب کچھ کررہے ہیں میں نے انہیں بتایا کہ کوئی حرج نہیں‘ آپ کا یہ مسئلہ حل ہوجائے ۔انہیں کچھ قرآنی اعمال بتائے کہ وہ گھر میں کریں کچھ ہی دنوں کے بعد کہنے لگے : اب ہمارے گھر میں مکڑیاں مری ہوئی نظر آرہی ہیں اور ہم محسوس کررہے ہیں کہ ہمارے گھر سے وہ سارا بوجھ اور سارا نظام جو مکڑیوں کے جالوں کی شکل میں ہمارے پاس آیا تھا وہ ختم ہوچکا ہے۔ دراصل وہ جنات تھے جن کا ان کے گھر میں قبضہ تھا اور وہ جگہ جگہ جالے اس لیے بناتے تھے کہ گھر کی ویرانی اور بوسیدگی محسوس ہو اور گھر کی بوسیدگی کی وجہ سے یہ گھر چھوڑ جائیں اور گھر بھوت گھر بن جائے اور وہ سب ڈر کر چلے جائیں لیکن ایسا نہ ہوسکا اور وہ جنات خود ڈر کر بھاگ گئے اور بہت سے مر گئے اور جل گئے۔
ارے یہ تو جناتی حملہ ہے!
ایک اور واقعہ ہے کہ ایک زمیندار کے جانوروں کے باڑے میں ایک انوکھی بیماری پھیل گئی‘ جانوروں کی کھال پھٹ جاتی تھی‘ ان سے ریشہ خون پیپ نکلتی تھی‘ تمام علاج معالجہ کرکے تھک جاتے تھے جب بیماری بڑھ جاتی تھی تو زمین سے چیونٹیاں نکلتی تھیں اور وہ سارے جانور کو لپیٹ میں لے لیتی تھیں حتیٰ کہ جانور تڑپتا اور تڑپتے تڑپتے مرجاتا تھا۔ بہت ادویات استعمال کیں‘ جسم کو لگانے کے لیے بھی اور اس جانور کو کھلانے کیلئے بھی اور زمین میں بھی چیونٹیاںمارنے کے لیے بہت چیزیںڈالیں مگرایک پل میں چیونٹیاں زمین میں گم ہوجاتی بعد میں پھر نکل آتیں۔ جب یہ معاملے میرے سامنے آیا تو میں نے کہا جناتی حملہ ہے اور یہ سب جناتی نظام چل رہا ہے۔ میں نے انہیں فوراً قرآنی اعمال بتائے انہوں نے وہ قرآنی اعمال کیے لیکن زیادہ عرصہ نہ کیے‘ چھوڑ دئیے تھوڑا سا فائدہ ہوا پھر حملہ اس سے بڑھ کر ہوا وہ پھر آئے‘تاکید کی‘ احساس دلایا اور پھر وہی قرآنی اعمال کیے اور انہیں فائدہ ہوا اور ان کے جانور کی تمام بیماریاں اور دکھ ختم ہوگئے۔ وہ چیونٹیاں وہ کیڑے کہاں گئے‘ حیرت ہوئی‘ حیران کن بات ہے کہ انہوں نے علاج معالجے میں لاکھوں روپے لگائے تھے کیونکہ ان کے گائے اور بھینسوں کا فارم تھا اور وہ گائے اور بھینسوں کے فارم میں بہت قیمتی جانور رکھے ہوئے تھے‘ عاجزاور تنگ آچکے تھے تمام علاج معالجے سے تھک چکے تھے۔ اور وہ بے بس ہوگئے تھے۔ اور بے بسی کی انتہا تھی۔ (جاری ہے)

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 514 reviews.